Tuesday 4 November 2014

جب دل ٹوٹتاھے

دل انسان کا مرکز ہے۔ محور ہے۔ وہ اس کے طواف کرتا ھے۔اسکے ناز بھرتا ھے۔ اسکی خوشی سے خوش ھوتا ھے اور اسکے غم سے غمگین۔ مگر جب دل ھی ٹوٹ جاۓ تو انسان کے کرنے کے لۓ کیا باقی بچتا ھے۔

 یہ موسیقی کی مدھر سریں، یہ حسن کی دل ربا ادایؑں ،یہ شراب، یہ شباب، یہ سب دل ھی کو بھلانے کے لۓ تو ھیں۔ مگر جب دل ھی بجھ جاۓ تو ھر شی کتنی پھیکی، بے ڈھنگی اور عجیب معلوم ھوتی ھے۔

 جب سلطان قتل ھو جاۓ تو سلطنت سلطنت نھیں رھتی اور جب دل قتل ھو جاۓ تو انسان انسان نھیں رھتا۔  دل شاہ ھے۔ دل ھی حاکم ھے۔ باقی سب محکوم۔  کیا عقل، کیا فلسفہ  اور کیا دلیل، سب ھی اس کے آگے جھکے ھیں۔ 

دل ٹوٹ کر کرچی کرچی ھو گیا۔ اب اس ٹو ٹی ھویؑ سلطنت، اس بکھرے ھوۓ انسان کا کیا کریں۔ اس بے جان مجسمے کا کیا کریں جس میں حرارت نھیں، حدت نھیں، شدت نھیں، جذبہ نھیں،خواھش نھیں۔ غرض کچھ بھی نھیں۔

دل کا غم دل ھی کو ھے، دل کے سوا کسی کو نھیں۔ دل کے غم کو کویؑ دوسرا کیا جانے۔ یہ دنیا والے کیا جانیں کہ دل کیا ھے اور دل میں کیا ھے۔ انھیں تو اپنی بھی فرصت نھیں۔ 

دل والے کھاں ھیں؟ دل والے تو اب ڈھونڈنے سے بھی نھیں ملتے۔ اک  حرص ھے، اک دوڑ ھے، اک اندھی خواھش ھے جسکے پیچھے سب بھاگ رھے ھیں۔ٍاس تیزدنیا میں دل کھاں۔ دل مفقود ھو چکے ھیں۔یہ اندھی دنیا کے لوگ خود بھی اندھے ھیں اوروں کو بھی اندھا کرتے ھیں۔ دل آنکھ ھے۔ دل نظر ھے۔ اور جو دیکھ سکتا ھے ،جو سن سکتا ھے اور اس اندھی دوڑ میں تھم سکتا ھےوھی دل والا ھے۔

          دل جب ٹوٹتا ھے تو اک آہ اٹھتی ھے جس سے عرش دھل جاتا ھے۔ اک سر نکلتی ھے اک تان بنتی ھے اور وہ وجود میں آتا ھے جو دل چاھتا ھے۔مگر دل موجود نھیں ھوتا کہ اپنی چاھت کو دیکھ سکے۔ دل ٹوٹ چکا ھوتا ھے۔  

Saturday 1 November 2014

انگریز کی غلامی

تاج برطانیہ نے ھمیں ملی جلی میراث بخشی ھے۔ایک طرف تو وہ غلامانہ سوچ ھمارے حصہ میں آیؑ ھے جس نے ھماری قومی زندگی کو ایک عجیب جمود میں مبتلا کر دیا ھے تو دوسری طرف انگریز کے دیے ھوۓ سرکاری نظام، ریل،نھری نظام اور دوسری بھت سی اصلاحات نے اس ملک کوایک نیؑ زندگی بخشی ھے۔
سو سال کی غلامی نے ھمارے لوگوں کی سوچ کا زاویہ بلکل بدل کر رکھ دیا ھے۔ ھمارے ھاں انگریزی زبان کا سیکھنا، پڑھنا اور بولنا ایک قابل فخر بات سمجھی جاتی ھے۔جو انگریز کی طرح پھنتا ھے،کھاتا ھے اور بولتا ھے وھی صرف بابو ھے اور وھی پڑھا لکھا ھے۔ ایک ھند وستانی یا پاکستانی کے ساتھ جب آپ دیسی بولی میں بات کرتے کرتے اچانک انگریزی بولنے لگتے ھیں تو اس کے رویے اور لھجے میں واضح تبدیلی آپکو محسوس ھوتی ھے۔وہ آپکو انتھاؑی مرعوب ھوتا دکھایؑ دیتا ھے۔

لیکن شاید یہ غلامی اتنی بھی غلامی نھیں۔ جب ھم کرہ ارض پر نظر دوڑاتے ھیں تو ھمیں اکثر اقوام مغربی لباس ،مغربی رھن سھن اور معاشرت بڑی خوشی سے اختیار کرتی نظر آتی ھے۔ جب ھم اقوام متحدہ کے کسی اجلاس میں اقوام عالم کے نمایؑندوں کو ایک جگہ جمع دیکھتے ھیں تو وھاں معدودے چند افراد کے سبھی لوگ مغربی لباس میں نظر آتے ھیں۔

بات اگر ایسی ھی ھے تو پھر کیا وجہ ھے کہ اقبال جیسا بڑا مفکر بھی برصغیر کے لوگوں کی ذھنی غلامی کا رونا روتا ھوا نظر آتا ھے۔اس حقیقت کو جاننے کے لیے ھمیں انگریز کی غلامی کی تاریخ کو دیکھنا پڑے گا۔
انگریز جب ھندوستان میں آیا تو ھندوستان بے شمار چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ھوا تھا۔ھر طرف طوایؑف الملوکی اوربدامنی کا دور دورہ تھا۔ایسے میں جس قسم کے انصاف کی توقع کی جا سکتی تھی وہ ظاھر ھے۔ایسے ماحول میں انگریز نے انصاف دیا،امن وامان کو یقینی بنایااور حکمت و تدبر سے برصغیر کے باشندوں پر حکومت کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ھی عرصہ میں برصغیر کی ساری ریاستیں ایک ایک کر کے انگریز کے سامنے سرنگوں ھوتی چلی گیؑں۔انگریز کے غلبہ کی اور بھی بھت سی وجوھات ھیں مگر بنیادی وجہ یھی ایک ھے۔
جو چیز انگریز کو ھندوستان کے پچھلے فاتحین سے ممتاز کرتی ھے وہ انگریز کا رویہ ھے۔انگریز نے کبھی  بھی ھندوستان کو اپنا ملک نھیں سمجھا۔ وہ برصغیر کے لوگوں کو ھمیشہ عجیب حقارت کی نظر سے دیکھتا رھا۔ اس نے کبھی بھی اس معاشرے میں ضم ھونے کی کوشش نھیں کی۔ای۔ایم۔فاسٹر نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے ناول میں اس چیز کو واضح کیا ھے۔جھاں مسلمان اور آرایؑں ھندوستانی معاشرے میں جلد ھی ضم ھو گیؑے وھاں انگریز ھمیشہ برصغیر کے لوگوں سے فاصلے پر رھا۔انگریز نے بڑی دانایؑی کے ساتھ ھندوستاں پر حکومت کی مگر انگریز کا سارا حکمت و تدبر اس کے رویے میں گرم جوشی پیدا کرنے میں کامیاب نہ ھو سکا۔ خلیل جبران کھتا ھے

دانایؑی دانایؑی نھیں رھتی جب وہ اتنی مغرور ھو جایؑے کہ رو نہ سکے،اتنی سنجیدہ ھو جایؑے کہ ھنس نہ سکے اور اتنی خود پرست ھو جایؑے کہ اپنے علاوہ کسی کو تلاش ھی نہ کرسکے۔

انگریز کی حکومت اور رویے کی اس سے زیادہ بھتر تعریف ممکن نھیں۔ یھی انگریز کی وہ سفاکیت تھی جسکا آج بھی ھندوستانی رونا روتے نظر آتے ھیں۔یھی وہ چیز تھی جس نے بر صغیر کے لوگوں کے دلوں میں انگریز کا وہ رعب پیدا کیا جو ان کی زھنی غلامی کا باعث ھے۔